غزلُ الغزلات 1:8-14
غزلُ الغزلات 1:8-14 اُردو ہم عصر ترجُمہ (UCV)
اَے میرے محبُوب! کاش تُم میرے بھایٔی کی مانند ہوتے، جِس نے میری ماں کی چھاتِیوں سے دُودھ پیا ہوتا! تَب اگر باہر تُم سے مُلاقات ہوتی، تو میں تُمہیں خُوب چُومتی؛ اَور کویٔی مُجھے حقیر نہ جانتا۔ اَور تَب میں تُمہیں اَپنی ماں کے گھر لے آتی، وہ ماں جِس نے مُجھے تعلیم دی۔ اَور مَیں تُمہیں اَپنے اناروں کے رس سے بنی ہُوئی عُمدہ مَے پِلاتی۔ اُس کا بایاں بازو میرے سَر کے نیچے ہے، اَور اَپنے داہنے بازو سے مُجھے گلے لگائے ہُوئے ہے۔ اَے یروشلیمؔ کی بیٹیوں، میں تُمہیں قَسم دیتی ہُوں، جَب تک مَحَبّت صحیح وقت پر خُود نہ جاگے، تُم اُسے نہ جگاؤ گی۔ یہ کون ہے جو بیابان سے، اَپنے محبُوب کا سہارا لیٔے ہویٔے چلی آ رہی ہے؟ سیب کے درخت تلے مَیں نے تُمہیں جگا دیا؛ وہاں جہاں تمہاری ماں حاملہ ہویٔی تھی، اَور جہاں اُس نے دردِزہ میں مُبتلا ہوکر تُمہیں پیدا کیا تھا۔ ذاتی مُہر کی مانند مُجھے اَپنے دِل پر، اَور انگُوٹھی کی مانند اَپنے اُنگلی میں پہن لو؛ کیونکہ مَحَبّت موت کی مانند طاقتور، اَور اُس کی غیرت قبر کی مانند بےرحم ہے۔ یہ بھڑکتی ہُوئی آگ کی مانند جلتی ہے، جو یَاہوِہ کے شُعلہ کی مانند ہے۔ سیلاب بھی مَحَبّت کی آگ کو بُجھا نہیں سکتے؛ بڑے دریا بھی اُسے بہا کر نہیں لے جا سکتے۔ خواہ کویٔی اَپنے گھر کی ساری دولت بھی، مَحَبّت کے بدلے دینا چاہے، تو بھی مَحَبّت اُسے حقیر ہی سمجھے گی۔ ہماری ایک چُھوٹی بہن ہے، ابھی اُس کی چھاتِیاں نہیں اُبھری ہیں۔ جِس روز اُس کی شادی کی بات چلے گی تو ہم اَپنی بہن کے لیٔے کیا کریں گے؟ اگر وہ ایک دیوار ہوتی، تو ہم اُسے چاندی کے بُرج سے سجاتے۔ اگر وہ ایک دروازہ ہوتی، تو ہم اُسے دیودار کے چوکھٹ سے محفوظ رکھتے۔ میں ایک دیوار ہُوں، اَور میری چھاتِیاں بُرجوں کی مانند ہیں۔ جَب میرا محبُوب مُجھے دیکھتا ہے تو مَیں اُس کی نظروں میں دلربا اَور تسلّی دینے والی ہُوں۔ بَعل ہامون میں شُلومونؔ کا ایک تاکستان تھا؛ اُس نے اَپنا تاکستان باغبانوں کو ٹھیکہ پر دے دیا۔ تاکہ ہر باغبان پھل کے بدلے ہزار ثاقل چاندی اَدا کرے۔ لیکن جو میرا تاکستان ہے؛ اُس پر میرا حق اَور جَوابدہی ہے؛ اَے شُلومونؔ! ایک ہزار ثاقل چاندی پر تمہارا حق ہے، اَور دو سَو ثاقل اُن کے لیٔے ہے جو اِس کے پھلوں کے نگہبان ہیں۔ اَے باغ میں رہنے والی، میرے ساتھی تمہاری آواز سُننے کی چاہت رکھتے ہیں، مُجھے بھی اَپنی آواز سُناؤ۔ اَے میرے محبُوب! دیر نہ کرو، اَور ایک غزال یا جَوان ہِرن کی مانند مَسالے کے پہاڑوں پر چلے آؤ۔
غزلُ الغزلات 1:8-14 ہولی بائبل کا اردو جیو ورژن (URDGVU)
کاش تُو میرا سگا بھائی ہوتا، تب اگر باہر تجھ سے ملاقات ہوتی تو مَیں تجھے بوسہ دیتی اور کوئی نہ ہوتا جو یہ دیکھ کر مجھے حقیر جانتا۔ مَیں تیری راہنمائی کر کے تجھے اپنی ماں کے گھر میں لے جاتی، اُس کے گھر میں جس نے مجھے تعلیم دی۔ وہاں مَیں تجھے مسالے دار مَے اور اپنے اناروں کا رس پلاتی۔ اُس کا بایاں بازو میرے سر کے نیچے ہوتا اور دایاں بازو مجھے گلے لگاتا ہے۔ اے یروشلم کی بیٹیو، قَسم کھاؤ کہ جب تک محبت خود نہ چاہے تم اُسے نہ جگاؤ گی، نہ بیدار کرو گی۔ یہ کون ہے جو اپنے محبوب کا سہارا لے کر ریگستان سے چڑھی آ رہی ہے؟ سیب کے درخت تلے مَیں نے تجھے جگا دیا، وہاں جہاں تیری ماں نے تجھے جنم دیا، جہاں اُس نے دردِ زہ میں مبتلا ہو کر تجھے پیدا کیا۔ مجھے مُہر کی طرح اپنے دل پر، اپنے بازو پر لگائے رکھ! کیونکہ محبت موت جیسی طاقت ور، اور اُس کی سرگرمی پاتال جیسی بےلچک ہے۔ وہ دہکتی آگ، رب کا بھڑکتا شعلہ ہے۔ پانی کا بڑا سیلاب بھی محبت کو بجھا نہیں سکتا، بڑے دریا بھی اُسے بہا کر لے جا نہیں سکتے۔ اور اگر کوئی محبت کو پانے کے لئے اپنے گھر کی تمام دولت پیش بھی کرے توبھی اُسے جواب میں حقیر ہی جانا جائے گا۔ ہماری چھوٹی بہن کی چھاتیاں نہیں ہیں۔ ہم اپنی بہن کے لئے کیا کریں اگر کوئی اُس سے رشتہ باندھنے آئے؟ اگر وہ دیوار ہو تو ہم اُس پر چاندی کا قلعہ بند انتظام بنائیں گے۔ اگر وہ دروازہ ہو تو ہم اُسے دیودار کے تختے سے محفوظ رکھیں گے۔ مَیں دیوار ہوں، اور میری چھاتیاں مضبوط مینار ہیں۔ اب مَیں اُس کی نظر میں ایسی خاتون بن گئی ہوں جسے سلامتی حاصل ہوئی ہے۔ بعل ہامون میں سلیمان کا انگور کا باغ تھا۔ اِس باغ کو اُس نے پہرے داروں کے حوالے کر دیا۔ ہر ایک کو اُس کی فصل کے لئے چاندی کے ہزار سِکے دینے تھے۔ لیکن میرا اپنا انگور کا باغ میرے سامنے ہی موجود ہے۔ اے سلیمان، چاندی کے ہزار سِکے تیرے لئے ہیں، اور 200 سِکے اُن کے لئے جو اُس کی فصل کی پہرا داری کرتے ہیں۔ اے باغ میں بسنے والی، میرے ساتھی تیری آواز پر توجہ دے رہے ہیں۔ مجھے ہی اپنی آواز سننے دے۔ اے میرے محبوب، غزال یا جوان ہرن کی طرح بلسان کے پہاڑوں کی جانب بھاگ جا!
غزلُ الغزلات 1:8-14 کِتابِ مُقادّس (URD)
کاش کہ تُو میرے بھائی کی مانِند ہوتا جِس نے میری ماں کی چھاتِیوں سے دُودھ پِیا! مَیں تُجھے جب باہر پاتی تو تیری مچِھّیاں لیتی اور کوئی مُجھے حقِیر نہ جانتا۔ مَیں تُجھ کو اپنی ماں کے گھر میں لے جاتی۔ وہ مُجھے سِکھاتی۔ مَیں اپنے اناروں کے رس سے تُجھے ممزُوج مَے پِلاتی۔ اُس کا بایاں ہاتھ میرے سر کے نِیچے ہوتا اور دہنا مُجھے گلے سے لگاتا۔ اَے یروشلِیم کی بیٹِیو! مَیں تُم کو قَسم دیتی ہُوں کہ تُم میرے پِیارے کو نہ جگاؤ نہ اُٹھاؤ جب تک کہ وہ اُٹھنا نہ چاہے۔ یہ کَون ہے جو بیابان سے اپنے محبُوب پر تکیہ کِئے چلی آتی ہے؟ مَیں نے تُجھے سیب کے درخت کے نِیچے جگایا۔ جہاں تیری وِلادت ہُوئی۔ جہاں تیری والِدہ نے تُجھے جنم دِیا۔ نگِین کی مانِند مُجھے اپنے دِل میں لگا رکھ اور تعوِیذ کی مانِند اپنے بازُو پر کیونکہ عِشق مَوت کی مانِند زبردست ہے اور غَیرت پاتال سی بے مُروّت ہے۔ اُس کے شُعلے آگ کے شُعلے ہیں اور خُداوند کے شُعلہ کی مانِند۔ سَیلاب عِشق کو بُجھا نہیں سکتا۔ باڑھ اُس کو ڈُبا نہیں سکتی۔ اگر آدمی مُحبّت کے بدلے اپنا سب کُچھ دے ڈالے تو وہ سراسر حقارت کے لائِق ٹھہرے گا۔ ہماری ایک چھوٹی بہن ہے۔ ابھی اُس کی چھاتِیاں نہیں اُٹِھیں۔ جِس روز اُس کی بات چلے ہم اپنی بہن کے لِئے کیا کریں؟ اگر وہ دِیوار ہو تو ہم اُس پر چاندی کا بُرج بنائیں گے اور اگر وہ دروازہ ہو تو ہم اُس پر دیودار کے تختے لگائیں گے۔ مَیں دِیوار ہُوں اور میری چھاتِیاں بُرج ہیں اور مَیں اُس کی نظر میں سلامتی یافتہ کی مانِند تھی۔ بعل ہامُوؔن میں سُلیماؔن کا تاکِستان تھا۔ اُس نے اُس تاکِستان کو باغبانوں کے سپُرد کِیا کہ اُن میں سے ہر ایک اُس کے پَھل کے بدلے ہزار مِثقال چاندی ادا کرے۔ میرا تاکِستان جو میرا ہی ہے میرے سامنے ہے۔ اَے سُلیماؔن! تُو تو ہزار لے اور اُس کے پَھل کے نِگہبان دو سَو پائیں۔ اَے بُوستان میں رہنے والی! رفِیق تیری آواز سُنتے ہیں۔ مُجھ کو بھی سُنا۔ اے میرے محبُوب! جلدی کر اور اُس غزال یا آہُو بچّے کی مانِند ہو جا جو بلسانی پہاڑیوں پر ہے۔