واعظ 1:2-16

واعظ 1:2-16 UCV

مَیں نے اَپنے دِل سے کہا، ”چلو میں تُمہیں عیش و عشرت سے آزماؤں گا۔“ اَور مَعلُوم کروں گا کہ اِس میں اَچھّا کیا ہے۔ لیکن یہ تجربہ بھی باطِل ہی نِکلا۔ مَیں نے ہنسی کی بابت کہا، ”ہنسی بھی احمقی ہے اگر اِس سے ہمیں کویٔی دائمی فائدہ نہیں ہوتا“ اَور عیش و عشرت کی بابت، ”اِس سے کیا حاصل ہُوا؟“ مَیں نے ہر وقت حِکمت کے اُصُولوں کو مدِّ نظر رکھتے ہُوئے، احمقی کی حد تک اَپنے آپ کو مَے نوشی سے خُوش کرنے کی کوشش کی تاکہ میں مَعلُوم کر سکوں کہ کیا یہ کام آسمان کے تلے بنی آدمؔ کے لیٔے مفید ہے جسے وہ ساری زندگی اَنجام دیتے رہیں۔ مَیں نے بڑے بڑے کام شروع کئے: مَیں نے اَپنے لیٔے مکانات تعمیر کئے اَور تاکستان لگائے۔ مَیں نے باغیچے اَور سَیر گاہیں تیّار کیں اَور اُن میں ہر قِسم کے پھلدار درخت لگائے۔ مَیں نے جنگلی درختوں کے ذخیرہ کی آبپاشی کے لیٔے تالاب بنائے۔ مَیں نے غُلام اَور لونڈیاں مول لیں اَور میرے پاس دیگر خانہ زاد مُلازمین بھی تھے اَور جتنے بھی مُجھ سے پیشتر یروشلیمؔ میں تھے میرے پاس اُن سَب سے زِیادہ گائے بَیلوں اَور بھیڑ بکریوں کے ریوڑ تھے۔ مَیں نے اَپنے لیٔے سونا اَور چاندی اَور بادشاہوں اَور صوبوں کے خزانے جمع کئے۔ مَیں نے گانے والے مَرد خواتین اَور خُوبصورت لونڈیاں فراہم کیں جو اِنسان کے لیٔے اسبابِ عیش ہیں۔ اَور مَیں اُن سَب کی بہ نِسبت جو مُجھ سے پہلے یروشلیمؔ کے شہر میں تھے، زِیادہ افضل اَور عظمت والا بَن گیا اَور اِن سَب باتوں میں میری حِکمت نے ہمیشہ میرا ساتھ دیا۔ اَور مَیں نے اَپنے آپ کو کسی بھی چیز سے جِس کی میری آنکھوں نے تمنّا کی، باز نہ رکھا؛ اَور مَیں نے اَپنے دِل کو کسی بھی عیش و عشرت سے باز نہ رکھا۔ میرا دِل میری ساری محنت سے خُوش ہُوا، اَور میری ساری محنت و مشقّت کا یہ اِنعام تھا۔ تاہم جَب مَیں نے اَپنے ہاتھوں کے تمام کاموں کا جائزہ لیا، اُس محنت و مشقّت کا جنہیں مَیں نے کیا تھا تو نتیجہ یہی نِکلا کہ سَب باطِل ہے اَور ہَوا کو پکڑنے کے برابر ہے؛ اَور دُنیا میں اِس کا کویٔی دائمی فائدہ نہیں۔ پھر مَیں نے اَپنے خیالات کو حِکمت، بےہودگی اَور حماقت پر غور کرنے میں لگایا۔ بادشاہ کے جانشین آدمی کو کیا کرنا چاہئے؟ اُسے پچھلے بادشاہ کی مثال پر عَمل کرنا چاہئے۔ مَیں نے مَعلُوم کیا کہ جَیسے رَوشنی تاریکی سے بہتر ہے، وَیسے ہی حِکمت حماقت سے بہتر ہے۔ دانِشور کی آنکھیں اُس کے سَر میں ہوتی ہیں، جَب کہ احمق اَندھیرے میں چلتا ہے۔ لیکن مَیں نے مَعلُوم کیا کہ دونوں کو موت کا شِکار ہونا پڑتا ہے۔ تَب مَیں نے اَپنے دِل سے کہا، جو حَشر احمق کا ہوتاہے وُہی میرا بھی ہوگا۔ پھر مُجھے دانِشور ہونے سے کیا فائدہ مِلا؟ چنانچہ مَیں نے اَپنے دِل سے کہا، ”یہ بھی باطِل ہے۔“ کیونکہ احمق کی طرح دانِشور آدمی کی یاد بھی طویل عرصہ تک باقی نہ رہے گی؛ اَور آنے والے دِنوں میں دونوں ہی بھُلا دئیے جایٔیں گے۔ احمق کی طرح دانِشور کو بھی مَرنا ہی ہے!