قُضاۃ 1:16-31
قُضاۃ 1:16-31 اُردو ہم عصر ترجُمہ (UCV)
ایک دِن شِمشُونؔ غزّہؔ گیا جہاں اُس نے ایک فاحِشہ کو دیکھا۔ وہ اُس کے ساتھ رات گُزارنے کے لیٔے اَندر گیا۔ غزّہؔ کے لوگوں کو خبر ہُوئی، ”شِمشُونؔ یہاں آیا ہے!“ چنانچہ اُنہُوں نے اُس جگہ کو گھیرلیا اَور رات بھر شہر کے پھاٹک پر اُس کی گھات میں بیٹھے رہے۔ البتّہ ساری رات وہ یہ کہہ کر چُپ چاپ بیٹھے رہے، ”صُبح ہوتے ہی ہم اُسے مار ڈالیں گے۔“ لیکن شِمشُونؔ وہاں آدھی رات تک پڑا رہا۔ پھر وہ اُٹھا اَور شہر کے پھاٹک کے کواڑوں اَور دونوں بازوؤں کو پکڑکر بینڈوں سمیت اُکھاڑ لیا اَور اُنہیں اَپنے کندھوں پر رکھ کر اُس پہاڑ کی چوٹی پر لے گیا جو حِبرونؔ کے سامنے ہے۔ چند دِنوں کے بعد سُورِقؔ کی وادی میں دلیلہؔ نام کی ایک عورت سے اُسے مَحَبّت ہو گئی۔ اَور فلسطینیوں کے سرداروں نے اُس عورت کے پاس جا کر کہا، ”اگر تُو اُس کو پھُسلا کر دریافت کر لے کہ اُس کی قُوّت کا راز کیا ہے اَور ہم کیوں کر اُس پر غالب آسکتے ہیں تاکہ ہم اُسے باندھ کر اُسے اِیذا پہُنچا سکیں، تو ہم میں سے ہر ایک تُجھے گیارہ سَو ثاقل چاندی دے گا۔“ تَب دلیلہؔ نے شِمشُونؔ سے کہا، ”مُجھے اَپنی قُوّت کا راز بتا کہ تُجھے کس طرح باندھ کر قابُو میں کیا جا سَکتا ہے؟“ شِمشُونؔ نے اُسے جَواب دیا، ”اگر کویٔی مُجھے سات تازہ تانتوں سے باندھ دے جو سِکھائی نہ گئی ہُوں تو میں دیگر آدمیوں کی مانند کمزور ہو جاؤں گا۔“ تَب فلسطینی سرداروں نے سات تازہ تانتیں اُسے لاکر دیں جو سِکھائی نہ گئی تھیں اَور اُس نے شِمشُونؔ کو اُن سے باندھ دیا۔ اَور چند لوگوں کو کمرہ میں چھُپا کر اُس نے شِمشُونؔ کو پُکار کر کہا، ”اَے شِمشُونؔ، فلسطینی تُجھ پر چڑھ آئے ہیں!“ لیکن اُس نے اُن تانتوں کو اِس آسانی سے توڑ ڈالا جَیسے دھاگا چراغ کی لَو لگتے ہی ٹوٹ جاتا ہے۔ چنانچہ اُس کی طاقت کا راز فاش نہ ہُوا۔ تَب دلیلہؔ نے شِمشُونؔ سے کہا، ”تُونے مُجھے احمق بنایا اَور مُجھ سے جھُوٹ بولا۔ اَب مُجھے بتا کہ تُجھے کیسے باندھا جا سَکتا ہے؟“ اُس نے کہا، ”اگر کویٔی مُجھے نئی رسّیوں سے جو کبھی اِستعمال نہ ہُوئی ہُوں کس کر باندھے تو میں دیگر آدمیوں کی طرح کمزور ہو جاؤں گا۔“ تَب دلیلہؔ نے نئی رسّیاں لیں اَور اُسے اُن سے باندھا۔ پھر چند لوگوں کو کمرہ میں چھُپا کر اُس نے اُسے پُکار کر کہا، ”اَے شِمشُونؔ، فلسطینی تُجھ پر چڑھ آئے ہیں!“ لیکن اُس نے اَپنے بازوؤں پر سے اُن رسّیوں کو دھاگے کی مانند توڑ ڈالا۔ تَب دلیلہؔ نے شِمشُونؔ سے کہا، ”اَب تک تو تُو مُجھے احمق بناتا رہا اَور مُجھ سے جھُوٹ بولتا رہا۔ اَب بتا کہ تُجھے کیسے باندھا جائے؟“ اُس نے کہا، ”اگر تُو میرے سَر کے بالوں کی سات لٹوں کو بُن کر کرگھے کے کھونٹے سے کس کر باندھ دے تو میں دیگر آدمیوں کی طرح کمزور ہو جاؤں گا۔“ چنانچہ جَب وہ سو رہاتھا تَب دلیلہؔ نے اُس کے سَر کی سات لٹیں لیں اَور اُنہیں بُن کر کرگھے کے کھونٹے سے کس دیا۔ اَور پھر اُس نے پُکار کر کہا، ”اَے شِمشُونؔ، فلسطینی تُجھ پر چڑھ آئے ہیں!“ وہ نیند میں سے جاگ اُٹھا اَور اُس نے کھونٹے کو کرگھے سمیت اُکھاڑ ڈالا۔ تَب اُس نے اُس سے کہا، ”جَب تُجھے مُجھ پر اِعتماد ہی نہیں تو تُو کیسے کہہ سَکتا ہے، ’مَیں تُجھ سے مَحَبّت کرتا ہُوں،‘ یہ تیسری بار ہے جو تُونے مُجھے احمق بنایا اَور مُجھے اَپنی قُوّت کا راز نہیں بتایا۔“ وہ اِس قِسم کی نُکتہ چینی سے اُسے ہر روز دِق کرتی رہی یہاں تک کہ اُس کا دَم ناک میں آ گیا۔ چنانچہ اُس نے اُسے سَب کچھ بتا دیا۔ اُس نے کہا، ”میرے سَر پر کبھی اُسترا نہیں پھرا کیونکہ مَیں ماں کی پیٹ سے ہی نذیر ہُوں اَور خُدا کے واسطے مخصُوص کیا گیا ہُوں۔ اگر میرا سَر مونڈا جائے تو میری طاقت جاتی رہے گی اَور مَیں دیگر لوگوں کی طرح کمزور ہو جاؤں گا۔“ جَب دلیلہؔ نے دیکھا کہ اُس نے سَب کچھ بتا دیا ہے تو اُس نے فلسطینی سرداروں کو کہلا بھیجا، ”ایک بار پھر آ جاؤ؛ کیونکہ اُس نے مُجھے سَب کچھ بتا دیا ہے۔“ چنانچہ فلسطینیوں کے سردار چاندی لے کر آ پہُنچے۔ دلیلہؔ نے اَپنے زانوں پر اُسے سُلا کر ایک آدمی کو بُلا بھیجا اَور اُس کے سَر کی ساتوں لٹیں مُنڈوا ڈالیں اَور اُسے اَپنے قابُو میں کرنے لگی۔ اَور اُس کی قُوّت رخصت ہو چُکی تھی۔ تَب اُس نے پُکارا، ”اَے شِمشُونؔ فلسطینی تُجھ پر چڑھ آئے ہیں!“ وہ اَپنی نیند سے جاگ اُٹھا اَور سوچا، ”میں باہر جا کر ایک ہی جھٹکے سے پہلے کی طرح چُست ہو جاؤں گا۔“ لیکن اُسے مَعلُوم نہ تھا کہ یَاہوِہ نے اُسے جُدا ہو چُکاہے۔ تَب فلسطینیوں نے اُسے پکڑکر اُس کی آنکھیں نکال ڈالیں اَور اُسے غزّہؔ لے گیٔے۔ پھر اُسے کانسے کی زنجیروں میں جکڑ کر قَیدخانہ میں چکّی پیسنے پر لگا دیا۔ لیکن اُس کے سَر کے بال مونڈے جانے کے بعد پھر سے بڑھنے لگے۔ تَب فلسطینیوں کے سردار اَپنے معبُود دگونؔ کو بڑی قُربانی گذراننے اَور جَشن منانے کے لیٔے یہ کہتے ہُوئے اِکٹھّے ہُوئے، ”ہمارے معبُود نے ہمارے دُشمن شِمشُونؔ کو ہمارے ہاتھ میں کر دیا ہے۔“ جَب لوگ اُسے دیکھتے تَب اَپنے معبُود کی تمجید کرتے ہُوئے کہتے، ”ہمارے معبُود نے ہمارے دُشمن کو ہمارے ہاتھ میں کر دیا ہے، جِس نے ہمارے مُلک کو تاراج کیا اَور ہمارے کیٔی لوگوں کو قتل کر ڈالا۔“ جَب اُن کی خُوشی کی اِنتہا نہ رہی تو وہ چِلّا چِلّاکر کہنے لگے، ”شِمشُونؔ کو باہر لے آؤ۔“ تاکہ وہ تماشا کرے اَور ہمارا دِل بہلائے۔ چنانچہ اُنہُوں نے شِمشُونؔ کو قَیدخانہ سے بُلوایا اَور وہ اُن کے لیٔے کھیل تماشا کرنے لگا۔ اَور جَب اُنہُوں نے اُسے دو سُتونوں کے درمیان کھڑا کیا، تو شِمشُونؔ نے اُس خادِم سے جو اُس کا ہاتھ پکڑے ہُوئے تھا کہا، ”مُجھے اُن سُتونوں کے پاس لے چل جِن پر یہ مَندِر قائِم ہے تاکہ میں اُن کا سہارا لے کر کھڑا رہُوں۔“ وہ مَندِر مَرد اَور عورتوں کے ہُجوم سے کھچاکھچ بھرا ہُوا تھا اَور فلسطینیوں کے سَب سردار وہاں تھے اَور اُس کی چھت پر تقریباً تین ہزار مَرد اَور عورت تھے جو شِمشُونؔ کا تماشا دیکھ رہے تھے۔ تَب شِمشُونؔ نے خُداوؔند سے دعا کی، ”اَے یَاہوِہ قادر مُجھے یاد فرما۔ اَے خُدا! صِرف ایک بار مُجھے طاقت بخش تاکہ میں ایک ہی کوشش میں فلسطینیوں سے اَپنی دونوں آنکھوں کا بدلہ لے سکوں۔“ تَب شِمشُونؔ نے اُن دو درمیانی سُتونوں کو ٹٹولا جِن پر وہ مَندِر قائِم تھا اَور ایک پر اَپنا بایاں ہاتھ اَور دُوسرے پر اَپنا داہنا ہاتھ رکھ کر زور لگایا، اَور شِمشُونؔ نے کہا، ”مُجھے فلسطینیوں کے ساتھ مرنے دے!“ پھر شِمشُونؔ نے اَپنی پُوری طاقت سے فلسطینیوں پر زور لگایا اَور وہ مَندِر سارے سرداروں اَور اُن لوگوں پر گِر پڑا جو وہاں مَوجُود تھے۔ اِس طرح اُس نے مَرتے مَرتے اِتنے لوگ مار ڈالے جتنے اُس نے اَپنی زندگی میں بھی نہیں مارے تھے۔ تَب اُس کے بھایٔی اَور اُس کے باپ کے گھرانے کے لوگ اُسے لینے کے لیٔے آئے۔ وہ اُسے لے گیٔے اَور اُسے ضورعاہؔ اَور اِستالؔ کے درمیان اُس کے باپ منوحہؔ کی قبر میں دفن کیا۔ وہ بیس بَرس تک اِسرائیلیوں کا قاضی رہا۔
قُضاۃ 1:16-31 ہولی بائبل کا اردو جیو ورژن (URDGVU)
ایک دن سمسون فلستی شہر غزہ میں آیا۔ وہاں وہ ایک کسبی کو دیکھ کر اُس کے گھر میں داخل ہوا۔ جب شہر کے باشندوں کو اطلاع ملی کہ سمسون شہر میں ہے تو اُنہوں نے کسبی کے گھر کو گھیر لیا۔ ساتھ ساتھ وہ رات کے وقت شہر کے دروازے پر تاک میں رہے۔ فیصلہ یہ ہوا، ”رات کے وقت ہم کچھ نہیں کریں گے، جب پَو پھٹے گی تب اُسے مار ڈالیں گے۔“ سمسون اب تک کسبی کے گھر میں سو رہا تھا۔ لیکن آدھی رات کو وہ اُٹھ کر شہر کے دروازے کے پاس گیا اور دونوں کواڑوں کو کنڈے اور دروازے کے دونوں بازوؤں سمیت اُکھاڑ کر اپنے کندھوں پر رکھ لیا۔ یوں چلتے چلتے وہ سب کچھ اُس پہاڑی کی چوٹی پر لے گیا جو حبرون کے مقابل ہے۔ کچھ دیر کے بعد سمسون ایک عورت کی محبت میں گرفتار ہو گیا جو وادیٔ سورق میں رہتی تھی۔ اُس کا نام دلیلہ تھا۔ یہ سن کر فلستی سردار اُس کے پاس آئے اور کہنے لگے، ”سمسون کو اُکسائیں کہ وہ آپ کو اپنی بڑی طاقت کا بھید بتائے۔ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ ہم کس طرح اُس پر غالب آ کر اُسے یوں باندھ سکیں کہ وہ ہمارے قبضے میں رہے۔ اگر آپ یہ معلوم کر سکیں تو ہم میں سے ہر ایک آپ کو چاندی کے 1,100 سِکے دے گا۔“ چنانچہ دلیلہ نے سمسون سے سوال کیا، ”مجھے اپنی بڑی طاقت کا بھید بتائیں۔ کیا آپ کو کسی ایسی چیز سے باندھا جا سکتا ہے جسے آپ توڑ نہیں سکتے؟“ سمسون نے جواب دیا، ”اگر مجھے جانوروں کی سات تازہ نسوں سے باندھا جائے تو پھر مَیں عام آدمی جیسا کمزور ہو جاؤں گا۔“ فلستی سرداروں نے دلیلہ کو سات تازہ نسیں مہیا کر دیں، اور اُس نے سمسون کو اُن سے باندھ لیا۔ کچھ فلستی آدمی ساتھ والے کمرے میں چھپ گئے۔ پھر دلیلہ چلّا اُٹھی، ”سمسون، فلستی آپ کو پکڑنے آئے ہیں!“ یہ سن کر سمسون نے نسوں کو یوں توڑ دیا جس طرح ڈوری ٹوٹ جاتی ہے جب آگ میں سے گزرتی ہے۔ چنانچہ اُس کی طاقت کا پول نہ کھلا۔ دلیلہ کا منہ لٹک گیا۔ ”آپ نے جھوٹ بول کر مجھے بےوقوف بنایا ہے۔ اب آئیں، مہربانی کر کے مجھے بتائیں کہ آپ کو کس طرح باندھا جا سکتا ہے۔“ سمسون نے جواب دیا، ”اگر مجھے غیراستعمال شدہ رسّوں سے باندھا جائے تو پھر ہی مَیں عام آدمی جیسا کمزور ہو جاؤں گا۔“ دلیلہ نے نئے رسّے لے کر اُسے اُن سے باندھ لیا۔ اِس مرتبہ بھی فلستی ساتھ والے کمرے میں چھپ گئے تھے۔ پھر دلیلہ چلّا اُٹھی، ”سمسون، فلستی آپ کو پکڑنے آئے ہیں!“ لیکن اِس بار بھی سمسون نے رسّوں کو یوں توڑ لیا جس طرح عام آدمی ڈوری کو توڑ لیتا ہے۔ دلیلہ نے شکایت کی، ”آپ بار بار جھوٹ بول کر میرا مذاق اُڑا رہے ہیں۔ اب مجھے بتائیں کہ آپ کو کس طرح باندھا جا سکتا ہے۔“ سمسون نے جواب دیا، ”لازم ہے کہ آپ میری سات زُلفوں کو کھڈی کے تانے کے ساتھ بُنیں۔ پھر ہی عام آدمی جیسا کمزور ہو جاؤں گا۔“ جب سمسون سو رہا تھا تو دلیلہ نے ایسا ہی کیا۔ اُس کی سات زُلفوں کو تانے کے ساتھ بُن کر اُس نے اُسے شٹل کے ذریعے کھڈی کے ساتھ لگایا۔ پھر وہ چلّا اُٹھی، ”سمسون، فلستی آپ کو پکڑنے آئے ہیں!“ سمسون جاگ اُٹھا اور اپنے بالوں کو شٹل سمیت کھڈی سے نکال لیا۔ یہ دیکھ کر دلیلہ نے منہ پُھلا کر ملامت کی، ”آپ کس طرح دعویٰ کر سکتے ہیں کہ مجھ سے محبت رکھتے ہیں؟ اب آپ نے تین مرتبہ میرا مذاق اُڑا کر مجھے اپنی بڑی طاقت کا بھید نہیں بتایا۔“ روز بہ روز وہ اپنی باتوں سے اُس کی ناک میں دم کرتی رہی۔ آخرکار سمسون اِتنا تنگ آ گیا کہ اُس کا جینا دوبھر ہو گیا۔ پھر اُس نے اُسے کھل کر بات بتائی، ”مَیں پیدائش ہی سے اللہ کے لئے مخصوص ہوں، اِس لئے میرے بالوں کو کبھی نہیں کاٹا گیا۔ اگر سر کو منڈوایا جائے تو میری طاقت جاتی رہے گی اور مَیں ہر دوسرے آدمی جیسا کمزور ہو جاؤں گا۔“ دلیلہ نے جان لیا کہ اب سمسون نے مجھے پوری حقیقت بتائی ہے۔ اُس نے فلستی سرداروں کو اطلاع دی، ”آؤ، کیونکہ اِس مرتبہ اُس نے مجھے اپنے دل کی ہر بات بتائی ہے۔“ یہ سن کر وہ مقررہ چاندی اپنے ساتھ لے کر دلیلہ کے پاس آئے۔ دلیلہ نے سمسون کا سر اپنی گود میں رکھ کر اُسے سُلا دیا۔ پھر اُس نے ایک آدمی کو بُلا کر سمسون کی سات زُلفوں کو منڈوایا۔ یوں وہ اُسے پست کرنے لگی، اور اُس کی طاقت جاتی رہی۔ پھر وہ چلّا اُٹھی، ”سمسون، فلستی آپ کو پکڑنے آئے ہیں!“ سمسون جاگ اُٹھا اور سوچا، ”مَیں پہلے کی طرح اب بھی اپنے آپ کو بچا کر بندھن کو توڑ دوں گا۔“ افسوس، اُسے معلوم نہیں تھا کہ رب نے اُسے چھوڑ دیا ہے۔ فلستیوں نے اُسے پکڑ کر اُس کی آنکھیں نکال دیں۔ پھر وہ اُسے غزہ لے گئے جہاں اُسے پیتل کی زنجیروں سے باندھا گیا۔ وہاں وہ قیدخانے کی چکّی پیسا کرتا تھا۔ لیکن ہوتے ہوتے اُس کے بال دوبارہ بڑھنے لگے۔ ایک دن فلستی سردار بڑا جشن منانے کے لئے جمع ہوئے۔ اُنہوں نے اپنے دیوتا دجون کو جانوروں کی بہت سی قربانیاں پیش کر کے اپنی فتح کی خوشی منائی۔ وہ بولے، ”ہمارے دیوتا نے ہمارے دشمن سمسون کو ہمارے حوالے کر دیا ہے۔“ سمسون کو دیکھ کر عوام نے دجون کی تمجید کر کے کہا، ”ہمارے دیوتا نے ہمارے دشمن کو ہمارے حوالے کر دیا ہے! جس نے ہمارے ملک کو تباہ کیا اور ہم میں سے اِتنے لوگوں کو مار ڈالا وہ اب ہمارے قابو میں آ گیا ہے!“ اِس قسم کی باتیں کرتے کرتے اُن کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ تب وہ چلّانے لگے، ”سمسون کو بُلاؤ تاکہ وہ ہمارے دلوں کو بہلائے۔“ چنانچہ اُسے اُن کی تفریح کے لئے جیل سے لایا گیا اور دو ستونوں کے درمیان کھڑا کر دیا گیا۔ سمسون اُس لڑکے سے مخاطب ہوا جو اُس کا ہاتھ پکڑ کر اُس کی راہنمائی کر رہا تھا، ”مجھے چھت کو اُٹھانے والے ستونوں کے پاس لے جاؤ تاکہ مَیں اُن کا سہارا لوں۔“ عمارت مردوں اور عورتوں سے بھری تھی۔ فلستی سردار بھی سب آئے ہوئے تھے۔ صرف چھت پر سمسون کا تماشا دیکھنے والے تقریباً 3,000 افراد تھے۔ پھر سمسون نے دعا کی، ”اے رب قادرِ مطلق، مجھے یاد کر۔ بس ایک دفعہ اَور مجھے پہلے کی طرح قوت عطا فرما تاکہ مَیں ایک ہی وار سے فلستیوں سے اپنی آنکھوں کا بدلہ لے سکوں۔“ یہ کہہ کر سمسون نے اُن دو مرکزی ستونوں کو پکڑ لیا جن پر چھت کا پورا وزن تھا۔ اُن کے درمیان کھڑے ہو کر اُس نے پوری طاقت سے زور لگایا اور دعا کی، ”مجھے فلستیوں کے ساتھ مرنے دے!“ اچانک ستون ہل گئے اور چھت دھڑام سے فلستیوں کے تمام سرداروں اور باقی لوگوں پر گر گئی۔ اِس طرح سمسون نے پہلے کی نسبت مرتے وقت کہیں زیادہ فلستیوں کو مار ڈالا۔ سمسون کے بھائی اور باقی گھر والے آئے اور اُس کی لاش کو اُٹھا کر اُس کے باپ منوحہ کی قبر کے پاس لے گئے۔ وہاں یعنی صُرعہ اور اِستال کے درمیان اُنہوں نے اُسے دفنایا۔ سمسون 20 سال اسرائیل کا قاضی رہا۔
قُضاۃ 1:16-31 کِتابِ مُقادّس (URD)
پِھر سمسُوؔن غزّہ کو گیا۔ وہاں اُس نے ایک کسبی دیکھی اور اُس کے پاس گیا۔ اور غزّہ کے لوگوں کو خبر ہُوئی کہ سمسُوؔن یہاں آیا ہے۔ اُنہوں نے اُسے گھیر لِیا اور ساری رات شہر کے پھاٹک پر اُس کی گھات میں بَیٹھے رہے پر رات بھر چُپ چاپ رہے اور کہا کہ صُبح کو رَوشنی ہوتے ہی ہم اُسے مار ڈالیں گے۔ اور سمسُوؔن آدھی رات تک لیٹا رہا اور آدھی رات کو اُٹھ کر شہر کے پھاٹک کے دونوں پلّوں اور دونوں بازُوؤں کو پکڑ کر بینڈے سمیت اُکھاڑ لِیا اور اُن کو اپنے کندھوں پر رکھّ کر اُس پہاڑ کی چوٹی پر جو حبرُوؔن کے سامنے ہے لے گیا۔ اِس کے بعد سُورِؔق کی وادی میں ایک عَورت سے جِس کا نام دلِیلہ تھا اُسے عِشق ہو گیا۔ اور فِلستِیوں کے سرداروں نے اُس عَورت کے پاس جا کر اُس سے کہا کہ تُو اُسے پُھسلا کر دریافت کر لے کہ اُس کی شہزوری کا بھید کیا ہے اور ہم کیوں کر اُس پر غالِب آئیں تاکہ ہم اُسے باندھ کر اُس کو اذِیّت پُہنچائیں اور ہم میں سے ہر ایک گیارہ سَو چاندی کے سِکّے تُجھے دے گا۔ تب دلِیلہ نے سمسُوؔن سے کہا کہ مُجھے تو بتا دے کہ تیری شہزوری کا بھید کیا ہے اور تُجھے اذِیّت پُہنچانے کے لِئے کِس چِیز سے تُجھے باندھنا چاہِئے؟ سمسُوؔن نے اُس سے کہا کہ اگر وہ مُجھ کو سات ہری ہری بیدوں سے جو سُکھائی نہ گئی ہوں باندھیں تو مَیں کمزور ہو کر اَور آدمیوں کی طرح ہو جاؤں گا۔ تب فِلستِیوں کے سردار سات ہری ہری بیدیں جو سُکھائی نہیں گئی تِھیں اُس عَورت کے پاس لے آئے اور اُس نے سمسُوؔن کو اُن سے باندھا۔ اور اُس عَورت نے کُچھ آدمی اندر کی کوٹھری میں گھات میں بِٹھا لِئے تھے سو اُس نے سمسُوؔن سے کہا کہ اَے سمسُوؔن فِلستی تُجھ پر چڑھ آئے! تب اُس نے اُن بیدوں کو اَیسا توڑا جَیسے سَن کا سُوت آگ پاتے ہی ٹُوٹ جاتا ہے۔ سو اُس کی طاقت کا بھید نہ کُھلا۔ تب دلِیلہ نے سمسُوؔن سے کہا دیکھ تُو نے مُجھے دھوکا دِیا اور مُجھ سے جُھوٹ بولا۔ اب تُو ذرا مُجھ کو بتا دے کہ تُو کِس چِیز سے باندھا جائے۔ اُس نے اُس سے کہا اگر وہ مُجھے نئی نئی رسِیّوں سے جو کبھی کام میں نہ آئی ہوں باندھیں تو مَیں کمزور ہو کر اَور آدمیوں کی طرح ہو جاؤں گا۔ تب دلِیلہ نے نئی رسِّیاں لے کر اُس کو اُن سے باندھا اور اُس سے کہا اَے سمسُوؔن فِلستی تُجھ پر چڑھ آئے! اور گھات والے اندر کی کوٹھری میں ٹھہرے ہی ہُوئے تھے۔ تب اُس نے اپنے بازُوؤں پر سے دھاگے کی طرح اُن کو توڑ ڈالا۔ سو دلِیلہ سمسُوؔن سے کہنے لگی اب تک تُو نے مُجھے دھوکا ہی دِیا اور مُجھ سے جُھوٹ بولا۔ اب تو بتا دے کہ تُو کِس چِیز سے بندھ سکتا ہے؟ اُس نے اُسے کہا اگر تُو میرے سر کی ساتوں لٹیں تانے کے ساتھ بُن دے۔ تب اُس نے کُھونٹے سے اُسے کَس کر باندھ دِیا اور اُس سے کہا اَے سمسُوؔن فِلستی تُجھ پر چڑھ آئے! تب وہ نِیند سے جاگ اُٹھا اور بَلّی کے کُھونٹے کو تانے کے ساتھ اُکھاڑ ڈالا۔ پِھر وہ اُس سے کہنے لگی تُو کیونکر کہہ سکتا ہے کہ مَیں تُجھے چاہتا ہُوں جب کہ تیرا دِل مُجھ سے لگا نہیں؟ تُو نے تِینوں بار مُجھے دھوکا ہی دِیا اور نہ بتایا کہ تیری شہزوری کا بھید کیا ہے۔ جب وہ اُسے روز اپنی باتوں سے تنگ اور مجبُور کرنے لگی یہاں تک کہ اُس کا دَم ناک میں آ گیا۔ تو اُس نے اپنا دِل کھول کر اُسے بتا دِیا کہ میرے سر پر اُسترہ نہیں پِھرا ہے۔ اِس لِئے کہ مَیں اپنی ماں کے پیٹ ہی سے خُدا کا نذِیر ہُوں۔ سو اگر میرا سر مُونڈا جائے تو میرا زور مُجھ سے جاتا رہے گا اور مَیں کمزور ہو کر اَور آدمِیوں کی طرح ہو جاؤں گا۔ جب دلِیلہ نے دیکھا کہ اُس نے دِل کھول کر سب کُچھ بتا دِیا تو اُس نے فِلستِیوں کے سرداروں کو کہلا بھیجا کہ اِس بار اَور آؤ کیونکہ اُس نے دِل کھول کر مُجھے سب کُچھ بتا دِیا ہے۔ تب فِلستِیوں کے سردار اُس کے پاس آئے اور روپے اپنے ہاتھ میں لیتے آئے۔ تب اُس نے اُسے اپنے زانُوؤں پر سُلا لِیا اور ایک آدمی کو بُلوا کر ساتوں لٹیں جو اُس کے سر پر تِھیں مُنڈو اڈالِیں اور اُسے اذِیّت دینے لگی اور اُس کا زور اُس سے جاتا رہا۔ پِھر اُس نے کہا اَے سمسُوؔن فِلستی تُجھ پر چڑھ آئے! اور وہ نِیند سے جاگا اور کہنے لگا کہ مَیں اَور دفعہ کی طرح باہر جا کر اپنے کو جھٹکُوں گا لیکن اُسے خبر نہ تھی کہ خُداوند اُس سے الگ ہو گیا ہے۔ تب فِلستِیوں نے اُسے پکڑ کر اُس کی آنکھیں نِکال ڈالِیں اور اُسے غزّہ میں لے آئے اور پِیتل کی بیڑیوں سے اُسے جکڑا اور وہ قَید خانہ میں چکّی پِیسا کرتا تھا۔ تَو بھی اُس کے سر کے بال مُنڈائے جانے کے بعد پِھر بڑھنے لگے۔ اور فِلستِیوں کے سردار فراہم ہُوئے تاکہ اپنے دیوتا دجوؔن کے لِئے بڑی قُربانی گُذرانیں اور خُوشی کریں کیونکہ وہ کہتے تھے کہ ہمارے دیوتا نے ہمارے دُشمن سمسُوؔن کو ہمارے ہاتھ میں کر دِیا ہے۔ اور جب لوگ اُس کو دیکھتے تو اپنے دیوتا کی تعرِیف کرتے اور کہتے تھے کہ ہمارے دیوتا نے ہمارے دُشمن اور ہمارے مُلک کو اُجاڑنے والے کو جِس نے ہم میں سے بُہتوں کو ہلاک کِیا ہمارے ہاتھ میں کر دِیا ہے۔ اور اَیسا ہُؤا کہ جب اُن کے دِل نِہایت شاد ہُوئے تو وہ کہنے لگے کہ سمسُوؔن کو بُلاؤ کہ ہمارے لِئے کوئی کھیل کرے۔ سو اُنہوں نے سمسُوؔن کو قَید خانہ سے بُلوایا اور وہ اُن کے لِئے کھیل کرنے لگا اور اُنہوں نے اُس کو دو سُتُونوں کے بِیچ کھڑا کِیا۔ تب سمسُوؔن نے اُس لڑکے سے جو اُس کا ہاتھ پکڑے تھا کہا مُجھے اُن سُتُونوں کو جِن پر یہ گھر قائِم ہے تھامنے دے تاکہ مَیں اُن پر ٹیک لگاؤُں۔ اور وہ گھر مَردوں اور عَورتوں سے بھرا تھا اور فِلستِیوں کے سب سردار وہِیں تھے اور چھت پر قرِیباً تِین ہزار مَرد و زن تھے جو سمسُوؔن کے کھیل دیکھ رہے تھے۔ تب سمسُوؔن نے خُداوند سے فریاد کی اور کہا اَے مالِک خُداوند مَیں تیری مِنّت کرتا ہُوں کہ مُجھے یاد کر اور مَیں تیری مِنّت کرتا ہُوں اَے خُدا فقط اِس دفعہ اَور تُو مُجھے زور بخش تاکہ مَیں یکبارگی فِلستِیوں سے اپنی دونوں آنکھوں کا بدلہ لُوں۔ اور سمسُوؔن نے دونوں درمِیانی سُتُونوں کو جِن پر گھر قائِم تھا پکڑ کر ایک پر دہنے ہاتھ سے اور دُوسرے پر بائیں سے زور لگایا۔ اور سمسُوؔن کہنے لگا کہ فِلستِیوں کے ساتھ مُجھے بھی مَرنا ہی ہے۔ سو وہ اپنے سارے زور سے جُھکا اور وہ گھر اُن سرداروں اور سب لوگوں پر جو اُس میں تھے گِر پڑا۔ پس وہ مُردے جِن کو اُس نے اپنے مَرتے دَم مارا اُن سے بھی زِیادہ تھے جِن کو اُس نے جِیتے جی قتل کِیا۔ تب اُس کے بھائی اور اُس کے باپ کا سارا گھرانا آیا اور وہ اُسے اُٹھا کر لے گئے اور صُرؔعہ اور اِستاؔل کے درمِیان اُس کے باپ منوحہ کے قبرستان میں اُسے دفن کِیا۔ وہ بِیس برس تک اِسرائیلِیوں کا قاضی رہا۔