واعظ 1:1-18

واعظ 1:1-18 اُردو ہم عصر ترجُمہ (UCV)

یروشلیمؔ کے بادشاہ داویؔد کے بیٹے شُلومونؔ واعظ کے الفاظ۔ ”واعظ فرماتا ہے باطِل ہی باطِل! بالکُل باطِل ہے! سَب کچھ باطِل ہے۔“ اِس دُنیا میں اِنسان اَپنی ساری محنت و مشقّت سے سُورج کے نیچے کیا حاصل کرتا ہے؟ ایک پُشت جاتی ہے اَور دُوسری پُشت آتی ہے، لیکن زمین ہمیشہ قائِم رہتی ہے۔ آفتاب طُلوع اَور غروب ہوتاہے، اَور جِس جگہ سے طُلوع ہوتاہے وہیں پھر جلد واپس چلا جاتا ہے۔ ہَوا جُنوب کی طرف چلتی ہے اَور شمال کی طرف مُڑ جاتی ہے؛ اَور ہمیشہ چکّر لگاتی ہُوئی، اَپنی راہ پر واپس لَوٹ آتی ہے۔ سَب دریا سمُندر میں گرتے ہیں، پھر بھی سمُندر کبھی نہیں بھرتا۔ دریا دوبارہ اُسی جگہ پر بہنے لگتے ہیں، جہاں وہ پہلے بہ رہیں تھے۔ سَب چیزیں اِتنی تھکانے والی ہیں، کہ اِنسان اُس کا بَیان نہیں کر سَکتا۔ آنکھ دیکھنے سے سیر نہیں ہوتی، اَور نہ ہی کان سُننے سے کبھی مطمئن۔ جو ہو چُکاہے وُہی پھر ہوگا، جو کچھ کیا جا چُکاہے، وُہی پھر کیا جائے گا؛ چنانچہ اِس دُنیا میں کچھ بھی نیا نہیں۔ کیا کویٔی اَیسی چیز ہے جِس کی بابت کویٔی کہہ سَکتا ہے، ”دیکھو! یہ تو نئی چیز ہے؟“ یہ تو ہمارے زمانہ سے پہلے ہی گویا قدیم زمانہ سے ہی مَوجُود تھی۔ پرانے زمانہ کے لوگوں کو کویٔی یاد نہیں رکھتا، اَور اِس زمانہ کے لوگوں کو بھی آنے والے زمانہ کے لوگ یاد نہیں رکھیں گے۔ میں، واعظ، یروشلیمؔ میں بنی اِسرائیل کا بادشاہ تھا۔ اَور مَیں نے اَپنی پُوری عقل اِس بات پر لگائی کہ جو کچھ آسمان تلے کیا جاتا ہے اُس کی حِکمت کے ذریعہ تفتیش و تحقیق کروں۔ خُدا نے اِنسان کو یہ سخت دُکھ دیا ہے کہ وہ محنت و مشقّت میں مُبتلا رہے۔ مَیں نے سَب کاموں پرجو آسمان تلے کئے جاتے ہیں، نظر کی۔ اَور یہی نتیجہ نِکلا کہ سَب کُچھ باطِل اَور ہَوا کو پکڑنے کے برابر ہے۔ جو ٹیڑھا ہے اُسے سیدھا نہیں کیا جا سَکتا؛ اَورجو مَوجُود ہی نہیں اُس کا شُمار کیسے ہو سَکتا۔ مَیں نے اَپنے دِل میں کہا، ”دیکھ، یروشلیمؔ میں مُجھ سے پیشتر جتنے بھی بادشاہ ہُوئے، مَیں نے حِکمت میں اُن سَب سے زِیادہ ترقّی کی ہے؛ اَور حِکمت اَور علم میں میرا تجربہ اُن سے کہیں زِیادہ ہے۔“ چنانچہ مَیں نے اَپنا دِل حِکمت، حماقت اَور جہالت کو جاننے اَور سمجھنے میں لگایا تو مَعلُوم کیا کہ یہ بھی ہَوا کو پکڑنے کے برابر ہے۔ کیونکہ جہاں حِکمت بہت ہے وہاں غم بھی بہت ہے؛ اَور علم میں اِضافہ کرنا بھی دُکھ میں اِضافہ کرنا ہی ہے۔

دوسروں تک پہنچائیں
پڑھیں واعظ 1

واعظ 1:1-18 ہولی بائبل کا اردو جیو ورژن (URDGVU)

ذیل میں واعظ کے الفاظ قلم بند ہیں، اُس کے جو داؤد کا بیٹا اور یروشلم میں بادشاہ ہے، واعظ فرماتا ہے، ”باطل ہی باطل، باطل ہی باطل، سب کچھ باطل ہی باطل ہے!“ سورج تلے جو محنت مشقت انسان کرے اُس کا کیا فائدہ ہے؟ کچھ نہیں! ایک پشت آتی اور دوسری جاتی ہے، لیکن زمین ہمیشہ تک قائم رہتی ہے۔ سورج طلوع اور غروب ہو جاتا ہے، پھر سُرعت سے اُسی جگہ واپس چلا جاتا ہے جہاں سے دوبارہ طلوع ہوتا ہے۔ ہَوا جنوب کی طرف چلتی، پھر مُڑ کر شمال کی طرف چلنے لگتی ہے۔ یوں چکر کاٹ کاٹ کر وہ بار بار نقطۂ آغاز پر واپس آتی ہے۔ تمام دریا سمندر میں جا ملتے ہیں، توبھی سمندر کی سطح وہی رہتی ہے، کیونکہ دریاؤں کا پانی مسلسل اُن سرچشموں کے پاس واپس آتا ہے جہاں سے بہہ نکلا ہے۔ انسان باتیں کرتے کرتے تھک جاتا ہے اور صحیح طور سے کچھ بیان نہیں کر سکتا۔ آنکھ کبھی اِتنا نہیں دیکھتی کہ کہے، ”اب بس کرو، کافی ہے۔“ کان کبھی اِتنا نہیں سنتا کہ اَور نہ سننا چاہے۔ جو کچھ پیش آیا وہی دوبارہ پیش آئے گا، جو کچھ کیا گیا وہی دوبارہ کیا جائے گا۔ سورج تلے کوئی بھی بات نئی نہیں۔ کیا کوئی بات ہے جس کے بارے میں کہا جا سکے، ”دیکھو، یہ نئی ہے“؟ ہرگز نہیں، یہ بھی ہم سے بہت دیر پہلے ہی موجود تھی۔ جو پہلے زندہ تھے اُنہیں کوئی یاد نہیں کرتا، اور جو آنے والے ہیں اُنہیں بھی وہ یاد نہیں کریں گے جو اُن کے بعد آئیں گے۔ مَیں جو واعظ ہوں یروشلم میں اسرائیل کا بادشاہ تھا۔ مَیں نے اپنی پوری ذہنی طاقت اِس پر لگائی کہ جو کچھ آسمان تلے کیا جاتا ہے اُس کی حکمت کے ذریعے تفتیش و تحقیق کروں۔ یہ کام ناگوار ہے گو اللہ نے خود انسان کو اِس میں محنت مشقت کرنے کی ذمہ داری دی ہے۔ مَیں نے تمام کاموں کا ملاحظہ کیا جو سورج تلے ہوتے ہیں، تو نتیجہ یہ نکلا کہ سب کچھ باطل اور ہَوا کو پکڑنے کے برابر ہے۔ جو پیچ دار ہے وہ سیدھا نہیں ہو سکتا، جس کی کمی ہے اُسے گنا نہیں جا سکتا۔ مَیں نے دل میں کہا، ”حکمت میں مَیں نے اِتنا اضافہ کیا اور اِتنی ترقی کی کہ اُن سب سے سبقت لے گیا جو مجھ سے پہلے یروشلم پر حکومت کرتے تھے۔ میرے دل نے بہت حکمت اور علم اپنا لیا ہے۔“ مَیں نے اپنی پوری ذہنی طاقت اِس پر لگائی کہ حکمت سمجھوں، نیز کہ مجھے دیوانگی اور حماقت کی سمجھ بھی آئے۔ لیکن مجھے معلوم ہوا کہ یہ بھی ہَوا کو پکڑنے کے برابر ہے۔ کیونکہ جہاں حکمت بہت ہے وہاں رنجیدگی بھی بہت ہے۔ جو علم و عرفان میں اضافہ کرے، وہ دُکھ میں اضافہ کرتا ہے۔

دوسروں تک پہنچائیں
پڑھیں واعظ 1

واعظ 1:1-18 کِتابِ مُقادّس (URD)

شاہِ یروشلِیم داؤُد کے بیٹے واعِظ کی باتیں۔ باطِل ہی باطِل واعِظ کہتا ہے باطِل ہی باطِل۔ سب کُچھ باطِل ہے۔ اِنسان کو اُس ساری مِحنت سے جو وہ دُنیا میں کرتا ہے کیا حاصِل ہے؟ ایک پُشت جاتی ہے اور دُوسری پُشت آتی ہے پر زمِین ہمیشہ قائِم رہتی ہے۔ سُورج نِکلتا ہے اور سُورج ڈھلتا بھی ہے اور اپنے طلُوع کی جگہ کو جلد چلا جاتا ہے۔ ہوا جنُوب کی طرف چلی جاتی ہے اور چکّر کھا کر شِمال کی طرف پِھرتی ہے۔ یہ سدا چکّر مارتی ہے اور اپنی گشت کے مُطابِق دَورہ کرتی ہے۔ سب ندیاں سمُندر میں گِرتی ہیں پر سمُندر بھر نہیں جاتا۔ ندیاں جہاں سے نِکلتی ہیں اُدھر ہی کو پِھر جاتی ہیں۔ سب چِیزیں ماندگی سے پُر ہیں۔ آدمی اِس کا بیان نہیں کر سکتا آنکھ دیکھنے سے آسُودہ نہیں ہوتی اور کان سُننے سے نہیں بھرتا۔ جو ہُؤا وُہی پِھر ہو گا اور جو چِیز بن چُکی ہے وُہی ہے جو بنائی جائے گی اور دُنیا میں کوئی چِیز نئی نہیں۔ کیا کوئی چِیز اَیسی ہے جِس کی بابت کہا جاتا ہے کہ دیکھو یہ تو نئی ہے؟ وہ تو سابِق میں ہم سے پیشتر کے زمانوں میں مَوجُود تھی۔ اگلوں کی کوئی یادگار نہیں اور آنے والوں کی اپنے بعد کے لوگوں کے درمِیان کوئی یاد نہ ہو گی۔ مَیں واعِظ یروشلِیم میں بنی اِسرائیل کا بادشاہ تھا۔ اور مَیں نے اپنا دِل لگایا کہ جو کُچھ آسمان کے نِیچے کِیا جاتا ہے اُس سب کی تفتِیش و تحقِیق کرُوں۔ خُدا نے بنی آدمؔ کو یہ سخت دُکھ دِیا ہے کہ وہ مشقّت میں مُبتلار ہیں۔ مَیں نے سب کاموں پر جو دُنیا میں کِئے جاتے ہیں نظر کی اور دیکھو یہ سب کُچھ بُطلان اور ہوا کی چران ہے۔ وہ جو ٹیڑھا ہے سِیدھا نہیں ہو سکتا اور ناقِص کا شُمار نہیں ہو سکتا۔ مَیں نے یہ بات اپنے دِل میں کہی دیکھ مَیں نے بڑی ترقّی کی بلکہ اُن سبھوں سے جو مُجھ سے پہلے یروشلِیم میں تھے زِیادہ حِکمت حاصِل کی۔ ہاں میرا دِل حِکمت اور دانِش میں بڑا کاردان ہُؤا۔ لیکن جب مَیں نے حِکمت کے جاننے اور حماقت و جہالت کے سمجھنے پر دِل لگایا تو معلُوم کِیا کہ یہ بھی ہوا کی چران ہے۔ کیونکہ بُہت حِکمت میں بُہت غم ہے اور عِلم میں ترقّی دُکھ کی فراوانی ہے۔

دوسروں تک پہنچائیں
پڑھیں واعظ 1