۲-سموئیل 1:13-39

۲-سموئیل 1:13-39 اُردو ہم عصر ترجُمہ (UCV)

اِسی دَوران داویؔد کا بیٹا امنُونؔ تامارؔ پر عاشق ہو گیا۔ وہ داویؔد کے بیٹے اَبشالومؔ کی بہن تھی اَور بڑی خُوبصورت تھی۔ امنُونؔ اَپنی بہن تامارؔ کی وجہ سے اِس قدر مایوس ہُوا کہ بیمار پڑ گیا کیونکہ وہ کنواری تھی اَور اُسے اُس کے ساتھ کچھ کرنا دشوار مَعلُوم ہو رہاتھا۔ اَور داویؔد کے بھایٔی شِمعہؔ کا بیٹا یوُنادابؔ امنُونؔ کا دوست تھا۔ یوُنادابؔ بڑا ہوشیار تھا۔ اُس نے امنُونؔ سے پُوچھا، ”تُم تو بادشاہ کے بیٹے ہو پھر روز بروز تمہارا مُنہ کیوں اُترتا جا رہاہے؟ کیا تُم مُجھے نہیں بتاؤ گے؟“ امنُونؔ نے اُس سے کہا، ”مُجھے اَپنے بھایٔی اَبشالومؔ کی بہن تامارؔ سے مَحَبّت ہو گئی ہے۔“ یوُنادابؔ نے اُس سے کہا، ”تُم اَپنے بِستر پر لیٹ جاؤ اَور بیمار ہونے کا بہانہ کر لو، اَور جَب تیرا باپ تُجھے دیکھنے آئے تو اُسے کہنا، ’میری درخواست ہے کہ تُم مہربانی کرکے میری بہن تامارؔ کو آنے دے تاکہ وہ مُجھے کھانا کھِلائے۔ اُسے میرے سامنے کھانا بنانے کی اِجازت دے تاکہ میں اُسے دیکھتا رہُوں اَور پھر اُس ہی کے ہاتھ سے کھانا کھاؤں۔‘ “ لہٰذا امنُونؔ لیٹ گیا اَور بیماری کا بہانہ کر لیا۔ جَب بادشاہ اُسے دیکھنے آیا تو امنُونؔ نے اُس سے کہا، ”مہربانی کرکے میری بہن تامارؔ کو آنے دیں کہ وہ میری نظروں کے سامنے کچھ ٹکیاں بنائے تاکہ میں اُس کے ہاتھ سے کھاؤں۔“ داویؔد نے محل میں تامارؔ کو پیغام بھیجا: ”اَپنے بھایٔی امنُونؔ کے گھر جا اَور اُس کے لیٔے کچھ کھانا تیّار کر۔“ لہٰذا تامارؔ اَپنے بھایٔی امنُونؔ کے گھر گئی۔ وہ بِستر پر پڑا ہُوا تھا۔ اُس نے کچھ آٹا لیا۔ اُسے گوندھا اَور امنُونؔ کی نظروں کے سامنے ٹکیاں پکائیں۔ پھر اُس نے اُنہیں طشتری میں رکھ کر اُس کے سامنے رکھا مگر اُس نے کھانے سے اِنکار کر دیا۔ امنُونؔ نے کہا، ”یہاں سے ہر ایک کو باہر بھیج دو۔“ جَب سَب چلے گیٔے تو امنُونؔ نے تامارؔ سے کہا، ”کھانا میری خواب گاہ میں لے آ اَور مُجھے اَپنے ہاتھ سے کھِلا۔“ تامارؔ اُن ٹکیوں کو اُٹھاکر اَپنے بھایٔی امنُونؔ کی خواب گاہ میں لے گئی۔ لیکن جَب وہ اُنہیں لے کر اُس کے پاس گئی کہ وہ کھائے تو اُس نے جھپٹ کر اُسے پکڑ لیا اَور کہا، ”اَے میری بہن، میرے ساتھ لیٹ جا۔“ اُس نے اُس سے کہا، ”نہیں میرے بھایٔی، میرے ساتھ زبردستی مت کر کیونکہ اِسرائیلیوں میں اَیسا کام نہیں ہونا چاہئے! اَیسی بدی مت کرو۔ میرا کیا ہوگا؟ میں تو بُری طرح رُسوا ہو جاؤں گی اَور تیرا کیا ہوگا؟ تُو اِسرائیل میں ایک بدکار احمق کی مانند گِنا جائے گا۔ مہربانی کرکے بادشاہ سے بات کر۔ وہ مُجھے تیرے ساتھ شادی کرنے سے نہ روکے گا۔“ لیکن اُس نے اُس کی ایک نہ سُنی اَور چونکہ وہ اُس سے زِیادہ طاقتور تھا اِس لیٔے اُس نے زبردستی کرکے اُس کی عزّت لُوٹ لی۔ جَب امنُونؔ اَپنی ہَوس پُوری کر چُکا اُس کی مَحَبّت جِتنی تھی اِس سے کیٔی گُنا نفرت میں بدل گئی۔ لہٰذا امنُونؔ نے اُس سے کہا، ”اُٹھ اَور یہاں سے نکل جا!“ تامارؔ نے کہا، ”نہیں! مُجھے یہاں سے نکالنا اُس ظُلم سے کہیں بڑھ کر ہوگا جو تُونے پہلے مُجھ پر کیا ہے۔“ لیکن اُس نے اُس کی ایک نہ سُنی۔ اَور اَپنے ذاتی نوکر کو بُلاکر کہا، ”اِس عورت کو یہاں سے باہر نکال دے اَور دروازہ اَندر سے بند کر دے۔“ نوکر نے اُس کو باہر نکال دیا اَور اُس کے پیچھے دروازہ کی چٹخنی لگا دی۔ وہ کشیدہ کاری والا جوڑا پہنے ہُوئے تھی کیونکہ شاہی دوشیزائیں اِسی قِسم کا لباس پہنتی تھیں۔ تامارؔ نے اَپنے سَر پر خاک ڈال لی اَور کشیدہ کاری والا لباس جو وہ پہنے ہُوئے تھی پھاڑ ڈالا اَور سَر پر ہاتھ رکھ کر زار زار روتی ہُوئی باہر چلی گئی۔ اُس کے بھایٔی اَبشالومؔ نے اُس سے کہا، ”کیا تیرے بھایٔی امنُونؔ نے تیرے ساتھ زبردستی کی ہے؟ بہن! اَب چُپ ہو جا کیونکہ وہ تیرا بھایٔی ہے اَور اِس بات کا غم نہ کر۔“ اَور تامارؔ اَپنے بھایٔی اَبشالومؔ کے گھر میں ایک بدنصیب عورت کی طرح پڑی رہی۔ جَب داویؔد بادشاہ نے یہ سَب باتیں سُنیں تو اُس کے غُصّہ کی کویٔی اِنتہا نہ رہی۔ اَور اَبشالومؔ نے امنُونؔ کو کچھ بُرا بھلا تو نہ کہا لیکن امنُونؔ سے نفرت کرنے لگا کیونکہ اُس نے اُس کی بہن تامارؔ کی عزّت لُوٹی تھی۔ دو سال بعد جَب اَبشالومؔ کی بھیڑوں کے بال کترنے والے اِفرائیمؔ کی سرحد کے نزدیک بَعل حَصورؔ میں تھے تو اُس نے بادشاہ کے سَب بیٹوں کو وہاں آنے کی دعوت دی۔ اَبشالومؔ نے بادشاہ کے پاس جا کر کہا، ”آپ کے خادِم کے پاس بھیڑوں کے بال کترنے والے آ گیٔے ہیں۔ کیا بادشاہ اَور اُس کے حاکم تشریف لاکر خادِم کو ممنون فرمائیں گے؟“ بادشاہ نے جَواب دیا: بیٹا! نہیں، ہم سَب کو نہیں جانا چاہئے کیونکہ ہم تُجھ پر بوجھ نہیں بننا چاہتے۔ حالانکہ اَبشالومؔ نے اُسے بہت ترغِیب دی پھر بھی اُس نے اِنکار کیا مگر اُس کے حق میں دعا ضروُر فرمائی۔ تَب اَبشالومؔ نے کہا، ”اگر نہیں تو براہِ کرم میرے بھایٔی امنُونؔ کو ہی میرے ساتھ جانے دیں۔“ بادشاہ نے اُس سے پُوچھا، ”کیا اُس کا جانا ضروُری ہے؟“ لیکن جَب اَبشالومؔ ضِد کرنے لگا تو اُس نے امنُونؔ اَور دیگر بادشاہ کے شہزادوں کو اُس کے ساتھ بھیج دیا۔ اَبشالومؔ نے اَپنے آدمیوں کو حُکم دیا کہ، ”سُنو! جَب امنُونؔ مَے پی کر بے خُود ہو جائے اَور مَیں تُمہیں کہُوں کہ امنُونؔ کو مارو تو تُم اُسے مار ڈالنا۔ اَور خوف نہ کرنا۔ کیا مَیں تُمہیں حُکم نہیں دے رہا ہُوں؟ پس ہمّت سے کام لینا اَور بہادر بننا۔“ لہٰذا اَبشالومؔ کے آدمیوں نے امنُونؔ کے ساتھ وُہی کیا جِس کا اَبشالومؔ نے حُکم دیا تھا۔ تَب بادشاہ کے تمام شہزادے اُٹھ کھڑے ہُوئے اَور اَپنے خچّروں پر سوار ہوکر بھاگ نکلے۔ وہ ابھی راستہ ہی میں تھے کہ داویؔد کو اِطّلاع مِلی: ”اَبشالومؔ نے بادشاہ کے تمام شہزادوں کو مار گرایا ہے اَور اُن میں سے کویٔی بھی باقی نہیں بچا ہے۔“ یہ سُن کر بادشاہ اُٹھ کھڑا ہُوا، اُس نے اَپنے کپڑے پھاڑ ڈالے اَور زمین پر لیٹ گیا اَور اُس کے تمام مُلازم بھی اَپنے اَپنے کپڑے پھاڑ کر اُس کے پاس کھڑے ہو گئے۔ لیکن داویؔد کے بھایٔی شِمعہؔ کے بیٹے یوُنادابؔ نے کہا، ”میرا آقا یہ نہ سوچے کہ بادشاہ کے تمام شہزادے مار ڈالے گیٔے ہیں۔ صِرف امنُونؔ ہی مَرا ہے کیونکہ اُس دِن سے جَب امنُونؔ نے اُس کی بہن تامارؔ کی عصمت دری کی تھی، اَبشالومؔ نے اُسے مار ڈالنے کا پکّا اِرادہ کر لیا تھا۔ سو میرے آقا بادشاہ کو اِس اِطّلاع سے کہ تمام شہزادے مار ڈالے گیٔے ہیں، پریشان نہیں ہونا چاہئے کیونکہ صِرف امنُونؔ ہی مَرا ہے۔“ اِسی دَوران اَبشالومؔ بھاگ گیا۔ اُس آدمی نے جو پہرا دے رہاتھا، ”نگاہ کی تو دیکھا کہ مغرب کی طرف پہاڑی کے دامن میں راستہ پر بہت سے آدمی چلے آ رہے ہیں۔ اُس نے جا کر بادشاہ کو بتایا کہ مَیں نے پہاڑی کے دامن میں حُورونایمؔ کی طرف آدمی دیکھے ہیں۔“ تَب یوُنادابؔ نے بادشاہ سے کہا، ”دیکھو بادشاہ کے شہزادے آ گیٔے اَور جَیسا آپ کہ خادِم نے کہاتھا بالکُل وَیسا ہی ہُوا۔“ جوں ہی اُس نے اَپنی بات ختم کی شہزادے آ پہُنچے اَور آہ و زاری کرنے لگے اَور بادشاہ اَور اُس کے سَب مُلازم بھی زار زار رُوئے۔ اَبشالومؔ بھاگ کر گیشُور کے بادشاہ عمّیہُوؔد کے بیٹے تلمی کے پاس چلا گیا اَور داویؔد اَپنے بیٹے کے لیٔے عرصہ تک ماتم کرتا رہا۔ اَبشالومؔ بھاگ کر گیشُور جانے کے بعد تین سال تک وہیں رہا۔ داویؔد بادشاہ کے دِل میں اَبشالومؔ تک پہُنچنے کی بڑی آرزُو تھی کیونکہ وہ امنُونؔ کی موت کے غم سے تسلّی پاچُکا تھا۔

دوسروں تک پہنچائیں
پڑھیں ۲-سموئیل 13

۲-سموئیل 1:13-39 ہولی بائبل کا اردو جیو ورژن (URDGVU)

داؤد کے بیٹے ابی سلوم کی خوب صورت بہن تھی جس کا نام تمر تھا۔ اُس کا سوتیلا بھائی امنون تمر سے شدید محبت کرنے لگا۔ وہ تمر کو اِتنی شدت سے چاہنے لگا کہ رنجش کے باعث بیمار ہو گیا، کیونکہ تمر کنواری تھی، اور امنون کو اُس کے قریب آنے کا کوئی راستہ نظر نہ آیا۔ امنون کا ایک دوست تھا جس کا نام یوندب تھا۔ وہ داؤد کے بھائی سِمعہ کا بیٹا تھا اور بڑا ذہین تھا۔ اُس نے امنون سے پوچھا، ”بادشاہ کے بیٹے، کیا مسئلہ ہے؟ روز بہ روز آپ زیادہ بجھے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ کیا آپ مجھے نہیں بتائیں گے کہ بات کیا ہے؟“ امنون بولا، ”مَیں ابی سلوم کی بہن تمر سے شدید محبت کرتا ہوں۔“ یوندب نے اپنے دوست کو مشورہ دیا، ”بستر پر لیٹ جائیں اور ایسا ظاہر کریں گویا بیمار ہیں۔ جب آپ کے والد آپ کا حال پوچھنے آئیں گے تو اُن سے درخواست کرنا، ’میری بہن تمر آ کر مجھے مریضوں کا کھانا کھلائے۔ وہ میرے سامنے کھانا تیار کرے تاکہ مَیں اُسے دیکھ کر اُس کے ہاتھ سے کھانا کھاؤں‘۔“ چنانچہ امنون نے بستر پر لیٹ کر بیمار ہونے کا بہانہ کیا۔ جب بادشاہ اُس کا حال پوچھنے آیا تو امنون نے گزارش کی، ”میری بہن تمر میرے پاس آئے اور میرے سامنے مریضوں کا کھانا بنا کر مجھے اپنے ہاتھ سے کھلائے۔“ داؤد نے تمر کو اطلاع دی، ”آپ کا بھائی امنون بیمار ہے۔ اُس کے پاس جا کر اُس کے لئے مریضوں کا کھانا تیار کریں۔“ تمر نے امنون کے پاس آ کر اُس کی موجودگی میں میدہ گوندھا اور کھانا تیار کر کے پکایا۔ امنون بستر پر لیٹا اُسے دیکھتا رہا۔ جب کھانا پک گیا تو تمر نے اُسے امنون کے پاس لا کر پیش کیا۔ لیکن اُس نے کھانے سے انکار کر دیا۔ اُس نے حکم دیا، ”تمام نوکر کمرے سے باہر نکل جائیں!“ جب سب چلے گئے تو اُس نے تمر سے کہا، ”کھانے کو میرے سونے کے کمرے میں لے آئیں تاکہ مَیں آپ کے ہاتھ سے کھا سکوں۔“ تمر کھانے کو لے کر سونے کے کمرے میں اپنے بھائی کے پاس آئی۔ جب وہ اُسے کھانا کھلانے لگی تو امنون نے اُسے پکڑ کر کہا، ”آ میری بہن، میرے ساتھ ہم بستر ہو!“ وہ پکاری، ”نہیں، میرے بھائی! میری عصمت دری نہ کریں۔ ایسا عمل اسرائیل میں منع ہے۔ ایسی بےدین حرکت مت کرنا! اور ایسی بےحرمتی کے بعد مَیں کہاں جاؤں؟ جہاں تک آپ کا تعلق ہے اسرائیل میں آپ کی بُری طرح بدنامی ہو جائے گی، اور سب سمجھیں گے کہ آپ نہایت شریر آدمی ہیں۔ آپ بادشاہ سے بات کیوں نہیں کرتے؟ یقیناً وہ آپ کو مجھ سے شادی کرنے سے نہیں روکیں گے۔“ لیکن امنون نے اُس کی نہ سنی بلکہ اُسے پکڑ کر اُس کی عصمت دری کی۔ لیکن پھر اچانک اُس کی محبت سخت نفرت میں بدل گئی۔ پہلے تو وہ تمر سے شدید محبت کرتا تھا، لیکن اب وہ اِس سے بڑھ کر اُس سے نفرت کرنے لگا۔ اُس نے حکم دیا، ”اُٹھ، دفع ہو جا!“ تمر نے التماس کی، ”ہائے، ایسا مت کرنا۔ اگر آپ مجھے نکالیں گے تو یہ پہلے گناہ سے زیادہ سنگین جرم ہو گا۔“ لیکن امنون اُس کی سننے کے لئے تیار نہ تھا۔ اُس نے اپنے نوکر کو بُلا کر حکم دیا، ”اِس عورت کو یہاں سے نکال دو اور اِس کے پیچھے دروازہ بند کر کے کنڈی لگاؤ!“ نوکر تمر کو باہر لے گیا اور پھر اُس کے پیچھے دروازہ بند کر کے کنڈی لگا دی۔ تمر ایک لمبے بازوؤں والا فراک پہنے ہوئے تھی۔ بادشاہ کی تمام کنواری بیٹیاں یہی لباس پہنا کرتی تھیں۔ بڑی رنجش کے عالم میں اُس نے اپنا یہ لباس پھاڑ کر اپنے سر پر راکھ ڈال لی۔ پھر اپنا ہاتھ سر پر رکھ کر وہ چیختی چلّاتی وہاں سے چلی گئی۔ جب گھر پہنچ گئی تو ابی سلوم نے اُس سے پوچھا، ”میری بہن، کیا امنون نے آپ سے زیادتی کی ہے؟ اب خاموش ہو جائیں۔ وہ تو آپ کا بھائی ہے۔ اِس معاملے کو حد سے زیادہ اہمیت مت دینا۔“ اُس وقت سے تمر اکیلی ہی اپنے بھائی ابی سلوم کے گھر میں رہی۔ جب داؤد کو اِس واقعے کی خبر ملی تو اُسے سخت غصہ آیا۔ ابی سلوم نے امنون سے ایک بھی بات نہ کی۔ نہ اُس نے اُس پر کوئی الزام لگایا، نہ کوئی اچھی بات کی، کیونکہ تمر کی عصمت دری کی وجہ سے وہ اپنے بھائی سے سخت نفرت کرنے لگا تھا۔ دو سال گزر گئے۔ ابی سلوم کی بھیڑیں افرائیم کے قریب کے بعل حصور میں لائی گئیں تاکہ اُن کے بال کترے جائیں۔ اِس موقع پر ابی سلوم نے بادشاہ کے تمام بیٹوں کو دعوت دی کہ وہ وہاں ضیافت میں شریک ہوں۔ وہ داؤد بادشاہ کے پاس بھی گیا اور کہا، ”اِن دنوں میں مَیں اپنی بھیڑوں کے بال کترا رہا ہوں۔ بادشاہ اور اُن کے افسروں کو بھی میرے ساتھ خوشی منانے کی دعوت ہے۔“ لیکن داؤد نے انکار کیا، ”نہیں، میرے بیٹے، ہم سب تو نہیں آ سکتے۔ اِتنے لوگ آپ کے لئے بوجھ کا باعث بن جائیں گے۔“ ابی سلوم بہت اصرار کرتا رہا، لیکن داؤد نے دعوت کو قبول نہ کیا بلکہ اُسے برکت دے کر رُخصت کرنا چاہتا تھا۔ آخرکار ابی سلوم نے درخواست کی، ”اگر آپ ہمارے ساتھ جا نہ سکیں تو پھر کم از کم میرے بھائی امنون کو آنے دیں۔“ بادشاہ نے پوچھا، ”خاص کر امنون کو کیوں؟“ لیکن ابی سلوم اِتنا زور دیتا رہا کہ داؤد نے امنون کو باقی بیٹوں سمیت بعل حصور جانے کی اجازت دے دی۔ ضیافت سے پہلے ابی سلوم نے اپنے ملازموں کو حکم دیا، ”سنیں! جب امنون مَے پی پی کر خوش ہو جائے گا تو مَیں آپ کو امنون کو مارنے کا حکم دوں گا۔ پھر آپ کو اُسے مار ڈالنا ہے۔ ڈریں مت، کیونکہ مَیں ہی نے آپ کو یہ حکم دیا ہے۔ مضبوط اور دلیر ہوں!“ ملازموں نے ایسا ہی کیا۔ اُنہوں نے امنون کو مار ڈالا۔ یہ دیکھ کر بادشاہ کے دوسرے بیٹے اُٹھ کر اپنے خچروں پر سوار ہوئے اور بھاگ گئے۔ وہ ابھی راستے میں ہی تھے کہ افواہ داؤد تک پہنچی، ”ابی سلوم نے آپ کے تمام بیٹوں کو قتل کر دیا ہے۔ ایک بھی نہیں بچا۔“ بادشاہ اُٹھا اور اپنے کپڑے پھاڑ کر فرش پر لیٹ گیا۔ اُس کے درباری بھی دُکھ میں اپنے کپڑے پھاڑ پھاڑ کر اُس کے پاس کھڑے رہے۔ پھر داؤد کا بھتیجا یوندب بول اُٹھا، ”میرے آقا، آپ نہ سوچیں کہ اُنہوں نے تمام شہزادوں کو مار ڈالا ہے۔ صرف امنون مر گیا ہو گا، کیونکہ جب سے اُس نے تمر کی عصمت دری کی اُس وقت سے ابی سلوم کا یہی ارادہ تھا۔ لہٰذا اِس خبر کو اِتنی اہمیت نہ دیں کہ تمام بیٹے ہلاک ہوئے ہیں۔ صرف امنون مر گیا ہو گا۔“ اِتنے میں ابی سلوم فرار ہو گیا تھا۔ پھر یروشلم کی فصیل پر کھڑے پہرے دار نے اچانک دیکھا کہ مغرب سے لوگوں کا بڑا گروہ شہر کی طرف بڑھ رہا ہے۔ وہ پہاڑی کے دامن میں چلے آ رہے تھے۔ تب یوندب نے بادشاہ سے کہا، ”لو، بادشاہ کے بیٹے آ رہے ہیں، جس طرح آپ کے خادم نے کہا تھا۔“ وہ ابھی اپنی بات ختم کر ہی رہا تھا کہ شہزادے اندر آئے اور خوب رو پڑے۔ بادشاہ اور اُس کے افسر بھی رونے لگے۔ داؤد بڑی دیر تک امنون کا ماتم کرتا رہا۔ لیکن ابی سلوم نے فرار ہو کر جسور کے بادشاہ تلمی بن عمی ہود کے پاس پناہ لی جو اُس کا نانا تھا۔ وہاں وہ تین سال تک رہا۔ پھر ایک وقت آ گیا کہ داؤد کا امنون کے لئے دُکھ دُور ہو گیا، اور اُس کا ابی سلوم پر غصہ تھم گیا۔

دوسروں تک پہنچائیں
پڑھیں ۲-سموئیل 13

۲-سموئیل 1:13-39 کِتابِ مُقادّس (URD)

اور اِس کے بعد اَیسا ہُؤا کہ داؤُد کے بیٹے ابی سلوؔم کی ایک خُوب صُورت بہن تھی جِس کا نام تمر تھا۔ اُس پر داؤُد کا بیٹا امنُوؔن عاشِق ہو گیا۔ اور امنُوؔن اَیسا کُڑھنے لگا کہ وہ اپنی بہن تمر کے سبب سے بِیمار پڑ گیا کیونکہ وہ کُنواری تھی۔ سو امنُوؔن کو اُس کے ساتھ کُچھ کرنا دُشوار معلُوم ہُؤا۔ اور داؤُد کے بھائی سمِعہ کا بیٹا یُوندؔب امنُوؔن کا دوست تھا اور یُوندؔب بڑا چالاک آدمی تھا۔ سو اُس نے اُس سے کہا اَے بادشاہ زادے! تُو کیوں دِن بدِن دُبلا ہوتا جاتا ہے؟ کیا تُو مُجھے نہیں بتائے گا؟ تب امنُوؔن نے اُس سے کہا کہ مَیں اپنے بھائی ابی سلوؔم کی بہن تمر پر عاشِق ہُوں۔ یُوندؔب نے اُس سے کہا تُو اپنے بِستر پر لیٹ جا اور بِیماری کا بہانہ کر لے اور جب تیرا باپ تُجھے دیکھنے آئے تو تُو اُس سے کہنا میری بہن تمر کو ذرا آنے دے کہ وہ مُجھے کھانا دے اور میرے سامنے کھانا پکائے تاکہ مَیں دیکُھوں اور اُس کے ہاتھ سے کھاؤُں۔ سو امنُوؔن پڑ گیا اور اُس نے بِیماری کا بہانہ کر لِیا اور جب بادشاہ اُس کو دیکھنے آیا تو امنُوؔن نے بادشاہ سے کہا میری بہن تمر کو ذرا آنے دے کہ وہ میرے سامنے دو پُورِیاں بنائے تاکہ مَیں اُس کے ہاتھ سے کھاؤُں۔ سو داؤُد نے تمر کے گھر کہلا بھیجا کہ تُو ابھی اپنے بھائی امنُوؔن کے گھر جا اور اُس کے لِئے کھانا پکا۔ سو تمر اپنے بھائی امنُوؔن کے گھر گئی اور وہ بِستر پر پڑا ہُؤا تھا اور اُس نے آٹا لِیا اور گُوندھا اور اُس کے سامنے پُورِیاں بنائِیں اور اُن کو پکایا۔ اور توے کو لِیا اور اُس کے سامنے اُن کو اُنڈیل دِیا پر اُس نے کھانے سے اِنکار کِیا۔ تب امنُوؔن نے کہا کہ سب آدمِیوں کو میرے پاس سے باہر کر دو۔ سو ہر ایک آدمی اُس کے پاس سے چلا گیا۔ تب امنُوؔن نے تمر سے کہا کہ کھانا کوٹھری کے اندر لے آ تاکہ مَیں تیرے ہاتھ سے کھاؤُں۔ سو تمر وہ پُورِیاں جو اُس نے پکائی تِھیں اُٹھا کر اُن کو کوٹھری میں اپنے بھائی امنُوؔن کے پاس لائی۔ اور جب وہ اُن کو اُس کے نزدِیک لے گئی کہ وہ کھائے تو اُس نے اُسے پکڑ لِیا اور اُس سے کہا اَے میری بہن مُجھ سے وصل کر۔ اُس نے کہا نہیں میرے بھائی میرے ساتھ جبر نہ کر کیونکہ اِسرائیلِیوں میں کوئی اَیسا کام نہیں ہونا چاہئے۔ تُو اَیسی حماقت نہ کر۔ اور بھلا مَیں اپنی رُسوائی کہاں لِئے پِھرُوں گی؟ اور تُو بھی اِسرائیلِیوں میں احمقوں میں سے ایک کی مانِند ٹھہرے گا۔ سو تُو بادشاہ سے عرض کر کیونکہ وہ مُجھ کو تُجھ سے روک نہیں رکھّے گا۔ لیکن اُس نے اُس کی بات نہ مانی اور چُونکہ وہ اُس سے زورآور تھا اِس لِئے اُس نے اُس کے ساتھ جبر کِیا اور اُس سے صُحبت کی۔ پِھر امنُوؔن کو اُس سے بڑی سخت نفرت ہو گئی کیونکہ اُس کی نفرت اُس کے جذبہِ عِشق سے کہِیں بڑھ کر تھی۔ سو امنُوؔن نے اُس سے کہا اُٹھ چلی جا۔ وہ کہنے لگی اَیسا نہ ہو گا کیونکہ یہ ظُلم کہ تُو مُجھے نِکالتا ہے اُس کام سے جو تُو نے مُجھ سے کِیا بدتر ہے پر اُس نے اُس کی ایک نہ سُنی۔ تب اُس نے اپنے ایک مُلازِم کو جو اُس کی خِدمت کرتا تھا بُلا کر کہا اِس عَورت کو میرے پاس سے باہر نِکال دے اور پِیچھے دروازہ کی چٹکنی لگا دے۔ اور وہ رنگ برنگ کا جوڑا پہنے ہُوئے تھی کیونکہ بادشاہوں کی کُنواری بیٹِیاں اَیسی ہی پوشاک پہنتی تِھیں۔ غرض اُس کے خادِم نے اُس کو باہر کر دِیا اور اُس کے پِیچھے چٹکنی لگا دی۔ اور تمر نے اپنے سر پر خاک ڈالی اور اپنے رنگ برنگ کے جوڑے کو جو پہنے ہُوئے تھی چاک کِیا اور سر پر ہاتھ دھر کر روتی ہُوئی چلی۔ اُس کے بھائی ابی سلوؔم نے اُس سے کہا کیا تیرا بھائی امنُوؔن تیرے ساتھ رہا ہے؟ خَیر اَے میری بہن اب چُپکی ہو رہ کیونکہ وہ تیرا بھائی ہے اور اِس بات کا غم نہ کر۔ سو تمر اپنے بھائی ابی سلوؔم کے گھر میں بے کس پڑی رہی۔ اور جب داؤُد بادشاہ نے یہ سب باتیں سُنِیں تو نِہایت غُصّہ ہُؤا۔ اور ابی سلوؔم نے اپنے بھائی امنُوؔن سے کُچھ بُرا بھلا نہ کہا کیونکہ ابی سلوؔم کو امنُوؔن سے نفرت تھی اِس لِئے کہ اُس نے اُس کی بہن تمر کے ساتھ جبر کِیا تھا۔ اور اَیسا ہُؤا کہ پُورے دو سال کے بعد بھیڑوں کے بال کُترنے والے ابی سلوؔم کے ہاں بعل حصوؔر میں تھے جو اِفرائِیم کے پاس ہے اور ابی سلوؔم نے بادشاہ کے سب بیٹوں کو دعوت دی۔ سو ابی سلوؔم بادشاہ کے پاس آ کر کہنے لگا کہ تیرے خادِم کے ہاں بھیڑوں کے بال کترنے والے آئے ہیں سو مَیں مِنّت کرتا ہُوں کہ بادشاہ مع اپنے مُلازِموں کے اپنے خادِم کے ساتھ چلے۔ تب بادشاہ نے ابی سلوؔم سے کہا نہیں میرے بیٹے ہم سب کے سب نہ چلیں تا نہ ہو کہ تُجھ پر ہم بوجھ ہو جائیں اور وہ اُس سے بجِد ہُؤا تَو بھی وہ نہ گیا پر اُسے دُعا دی۔ تب ابی سلوؔم نے کہا اگر اَیسا نہیں ہو سکتا تو میرے بھائی امنُوؔن کو تو ہمارے ساتھ جانے دے۔ بادشاہ نے اُس سے کہا وہ تیرے ساتھ کیوں جائے؟ لیکن ابی سلوؔم اَیسا بجِد ہُؤا کہ اُس نے امنُوؔن اور سب بادشاہ زادوں کو اُس کے ساتھ جانے دِیا۔ اور ابی سلوؔم نے اپنے خادِموں کو حُکم دِیا کہ دیکھو جب امنُوؔن کا دِل مَے سے سرُور میں ہو اور مَیں تُم کو کہُوں کہ امنُوؔن کو مارو تو تُم اُسے مار ڈالنا۔ خَوف نہ کرنا۔ کیا مَیں نے تُم کو حُکم نہیں دِیا؟ دِلیر اور بہادُر بنے رہو۔ چُنانچہ ابی سلوؔم کے نَوکروں نے امنُوؔن سے وَیسا ہی کِیا جَیسا ابی سلوؔم نے حُکم دِیا تھا۔ تب سب بادشاہ زادے اُٹھے اور ہر ایک اپنے خچرّ پر چڑھ کر بھاگا۔ اور وہ ہنُوز راستہ ہی میں تھے کہ داؤُد کے پاس یہ خبر پُہنچی کہ ابی سلوؔم نے سب بادشاہ زادوں کو قتل کر ڈالا ہے اور اُن میں سے ایک بھی باقی نہیں بچا۔ تب بادشاہ نے اُٹھ کر اپنے کپڑے پھاڑے اور زمِین پر پڑ گیا اور اُس کے سب مُلازِم کپڑے پھاڑے ہُوئے اُس کے حضُور کھڑے رہے۔ تب داؤُد کے بھائی سِمعہ کا بیٹا یُوندؔب کہنے لگا کہ میرا مالِک یہ خیال نہ کرے کہ اُنہوں نے سب جوانوں کو جو بادشاہ زادے ہیں مار ڈالا ہے اِس لِئے کہ صِرف امنُوؔن ہی مَرا ہے کیونکہ ابی سلوؔم کے اِنتِظام سے اُسی دِن سے یہ بات ٹھان لی گئی تھی جب اُس نے اُس کی بہن تمر کے ساتھ جبر کِیا تھا۔ سو میرا مالِک بادشاہ اَیسا خیال کر کے کہ سب بادشاہ زادے مَر گئے اِس بات کا غم نہ کرے کیونکہ صِرف امنُوؔن ہی مَرا ہے۔ اور ابی سلوؔم بھاگ گیا اور اُس جوان نے جو نِگہبان تھا اپنی آنکھیں اُٹھا کر نِگاہ کی اور کیا دیکھا کہ بہت سے لوگ اُس کے پِیچھے کی طرف سے پہاڑ کے دامن کے راستہ سے چلے آ رہے ہیں۔ تب یُوندب نے بادشاہ سے کہا کہ دیکھ بادشاہ زادے آ گئے۔ جَیسا تیرے خادِم نے کہا تھا وَیسا ہی ہے۔ اُس نے اپنی بات ختم ہی کی تھی کہ بادشاہ زادے آ پُہنچے اور چِلاّ چِلاّ کر رونے لگے اور بادشاہ اور اُس کے سب مُلازِم بھی زار زار روئے۔ لیکن ابی سلوؔم بھاگ کر جسُور کے بادشاہ عمِّیہُود کے بیٹے تلمی کے پاس چلا گیا اور داؤُد ہر روز اپنے بیٹے کے لِئے ماتم کرتا رہا۔ سو ابی سلوؔم بھاگ کر جسُور کو گیا اور تِین برس تک وہِیں رہا۔ اور داؤُد بادشاہ کے دِل میں ابی سلوؔم کے پاس جانے کی بڑی آرزُو تھی کیونکہ امنُوؔن کی طرف سے اُسے تسلّی ہو گئی تھی اِس لِئے کہ وہ مَر چُکا تھا۔

دوسروں تک پہنچائیں
پڑھیں ۲-سموئیل 13